Pakistan
This article was added by the user . TheWorldNews is not responsible for the content of the platform.

جھوٹ کے پیروں پر کھڑا مغربی میڈیا (آخری حصہ)

امریکا کے معروف ٹی وی نیٹ ورک ایم ایس این بی سی نے مبینہ طور پر 3 مسلمان اینکرز کو جو غزہ میں محصور عوام کے دکھوں کو اپنے شو میں دنیا کے سامنے پیش کر رہے تھے جس طرح معطل کیا ہے یہ سنسر شپ کی وہ بدترین صورت ہے جس میں سچائی اور حقائق کے لیے جگہ تنگ ہوتی چلی جاتی ہے۔ مغربی میڈیا آج بھی اس ذہنی کیفیت میں ہے کہ ’’آپ اسرائیل کے اور ہمارے ساتھ ہیں یا پھر خلاف‘‘۔

فرانس، جرمنی اور اٹلی سمیت بہت سے یورپی ممالک نے فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں پر پابندی عائد کردی ہے لیکن اس کے باوجود لوگ جنگی جرائم کا شکار ہونے والے اہل فلسطین کے حق میں مظاہرے کررہے ہیں جو انسانیت سے ہماری اجتماعی پر امیدی میں اضافہ کرتی ہے لیکن بعض مغربی میڈیا گروپ ان مظاہروں کو منفی رنگ دینے کی کوشش کررہے ہیں وہ بہت گمراہ کن ہے۔ بی بی سی نے فلسطینیوں کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں کو حماس کی حمایت میں مظاہروں کا نام دیا۔ یاد رہے برطانیہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔

اہل فلسطین کے قتل عام اور بے حدو حساب بمباری کو مغربی میڈیا ظالمانہ حدتک نظر انداز کررہا ہے ایسے میں سوشل میڈیا اور الجزیرہ جیسے چند میڈیا نیٹ ورکس غنیمت ہیں جو بھرپور کوریج کررہے ہیں مگر اب ان پلیٹ فارمز کو بھی غزہ میں قتل عام کی رپورٹنگ اور تبصروں سے روکنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ نیو یارک ٹائمز کی پلٹزر انعام یافتہ تحقیقاتی رپورٹر اور کولمبیا یونیورسٹی کی پروفیسر عظمت خان نے بتایا کہ انسٹاگرام اسٹوری پر غزہ میں جنگ کے حوالے سے پوسٹ کرنے پر ان کے اکاؤنٹ کو ’’شیڈو بین‘‘ کردیا گیا۔ وہ ایکس پر لکھتی ہیں کہ ’’یہ جنگ میں معتبر صحافت اور معلومات کے تبادلے کے لیے غیرمعمولی خطرہ ہے‘‘۔

غزہ پر اسرائیل کی مسلسل بمباری، اسے فلسطینی بچوں کا مقتل بنانے اور لاکھوں لوگوں کو بے گھر کرنے کے باوجو نیو یارک ٹائمز کے اداریے میں اسرائیل کا جس طرح دفاع کیا گیا ہے وہ بہت افسوس ناک اور غلط نتائج مرتب کرنے کی بدترین مثال ہے۔ نیویارک ٹائمز اپنے اداریہ میں لکھتا ہے ’’اسرائیل جس کے دفاع کے لیے لڑ رہا ہے وہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو انسانی زندگی اور قانون کی حکمرانی کو اہمیت دیتا ہے‘‘۔ اس اداریے میں اسرائیل کے مظالم، فلسطین کی سرزمین پر قبضے اور اہل فلسطین کو نو آبادی بنانے اور انہیں اپنے گھروں سے بے دخل کرنے کو کوئی اہمیت دی گئی ہے اور نہ ان کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسے مغربی اخبار کی فکر اور سوچ ہے جو جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کے نعرے بلند کرتا رہتا ہے۔ ایک نسل پرست حکومت کی مجرمانہ سرگرمیوں کا دفاع نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹرز کی سوچ اور فکر کے جو زاویے ظاہر کرتی ہے اس میں انسانی حقوق کی حمایت کی جستجوکرنا ناممکن کی جستجو ہے۔ یہ سب کچھ بہت عجیب اس لیے نہیں ہے کہ مغربی میڈیا کے دوہرے معیار کے جو مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں کوئی انسانی ذہن اس طرح کی فتنہ گری کا مظاہرہ نہیں کرسکتا۔

انیسویں صدی کے آخر میں سب سے بڑی موٹر کمپنی فورڈ کے مالک ہنری فورڈ نے ایک کتاب ’’دی انٹر نیشنل جیو‘‘ لکھی تھی۔ اس کتاب میں اس نے واضح طور پر لکھا ہے ’’پوری دنیا میں پھیلا فساد یہودیوں کا پیدا کردہ ہے۔ سوویت بالشویک انقلاب ہو یا فرانسیسی انقلاب سبھی میں ان کا ہاتھ ہے۔ وہ امریکی معاشرے پر پوری طرح حاوی ہیں۔ ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ ہے‘‘۔ مغربی ذرائع ابلاغ پر یہودیوں کا قبضہ وجہ ہے کہ حماس کی قید میں سو ڈیڑھ سے اسرائیلیوں پر تو مغربی میڈیا میں شور ہے لیکن اسرائیلی جیلوں میں بند پانچ ہزار فلسطینیوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں۔

شہری آبادی پر فاسفورس بمبوں کا استعمال اور لاکھوں لوگوں کو خوراک، پانی، بجلی اور ادویات سے محروم رکھنا، نہتے شہریوں پر اسکولوں اور اسپتالوں کا لحاظ کیے بغیر مہلک ترین بمباری کرنا اور انہیں مٹادینے کے دعوے کرنا، یہ ایک ایسے ملک کی روش ہوسکتی ہے جو انسانی معاشروں میں خونریز فساد پھیلانے پر یقین رکھتا ہو جو ذرائع ابلاغ کو بھی اپنے مفادات کے فروغ کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا ہو۔

بات ادھوری رہ جائے گی اگر اس حوالے سے بھارتی میڈیا کے جھوٹ اور فریب کی چابک دستیاں بیان نہ کی جائیں۔ بھارتی میڈیانے اس ضمن میں جس تواتر اور بلند آہنگی سے غلط بیانیاں کی ہیں انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ اسرائیل اور فلسطینیوں کی نہیں بلکہ بھارت اور فلسطینیوں کی جنگ ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ابھی حماس کے سرپرائز سے حیرت اور یقین کے درمیان ہی معلق تھے کہ مودی جی اس جنگ میں انہیں بھارت کی مکمل حمایت کا یقین دلا رہے تھے اس کے ساتھ ہی بی جے پی کا میڈیا طوفان حماس کے طوفان الاقصیٰ کے مقابل آگیا۔

حماس نے جتنے وقت میں اتنے میزائل نہیں داغے جتنے بھارتیوں کے ٹوئٹر اکائونٹس سے اسرائیل کے حق میں ٹوئٹس داغے گئے۔ جن میں اسرائیل سے یکجہتی کے ساتھ ساتھ بھارتیوں کے اس دکھ کی چادر بھی چڑھی ہوئی تھی جو انہیں مسلمانوں کے جذبہ ٔ جہاد سے جو آتنک وادی پیدا کرتا ہے۔ ایک ٹویٹ میں کہا گیا ’’بھارت میں بھی غزہ جیسے کئی علاقے ہیں جن کا دماغ ٹھکانے لگانے کی ضرورت ہے‘‘۔

اسرائیل کی بمباری سے اتنے فلسطینی عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے نہیں ہیں جتنا مغربی اور بھارتی میڈیا کے جھوٹ اور فریب کے ملبے تلے سچائی دب کررہ گئی ہے۔ غزہ کے بپٹسٹ اسپتال پر حملے کا خود نیتن یاہو کے ایک مشیر نے اپنی ٹویٹ میں اعتراف کیا تھا لیکن جیسے ہی اس حملے کے ردعمل میں دنیا میں شور اٹھا اسرائیل اپنی اس دلیری کی داستان سے دستبردار ہوگیا اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ حملے کا الزام اسلامک جہاد نامی تنظیم پر لگا دیا گیا۔ یہ جھوٹ اتنے تواتر سے اور اتنی بڑی تعداد میں بولا گیا کہ صدر بائیڈن بھی اس کا حصہ بن گئے۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس جھوٹ کی تشہیر میں بڑا حصہ ڈالا۔

ایک وڈیو بھارت میں لا کھوں مرتبہ شیئر کی گئی جس میں اسرائیلی بچوں سے بھری ہوئی ایک بس کو حماس کا ایک دہشت گرد اغوا کرکے لے جارہا ہے۔ حالانکہ یہ بس اسرائیل کے ایک اسکول کی تھی جس میں اسرائیلی اسکول کی بچیاں سوار تھیں اور جسے دہشت گرد قرار دیا جارہا تھا وہ بچیوں کا ٹیچر تھا۔ مغربی اور بھارتی میڈیا جھوٹ اور فریب کی ایسی سرزمین ہے جس میں مسلمانوں کے حوالے سے زہرناک کانٹوں کے سوا کچھ نہیں۔