Pakistan
This article was added by the user . TheWorldNews is not responsible for the content of the platform.

اشرافیہ کی عیاشی اور بوجھ غریب پر

اے ابن آدم آپ کے زخم 74 سال پرانے ہیں مگر افسوس کے آج تک کسی ایک حکومت نے آپ کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا۔ حکومت اور اپوزیشن میں موجود لوگ جو ٹی وی اور اخبارات میں ایک دوسرے کے دشمن نظر آتے ہیں۔ دراصل سب اندر سے ایک ہیں کیوں کہ مفادات تو سب کے ایک ہیں بس قوم کو بیوقوف بنا کر لاکھ پتی سے کروڑ پتی اور کروڑ پتی سے ارب پتی بن گئے۔ حکومت لوڈشیڈنگ تو ختم نہیں کرسکتی بس باتیں بڑی بڑی کرتی ہے، ہمارے ملک میں کوئلہ موجود ہے، تیل موجود ہے مگر طاقتور حکومت موجود نہیں ہے جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کو باہمت جواب دے سکے۔ بقول ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ کے اس سال جنوری میں تھرکول فیلڈ بلاک 1 میں 3 ارب ٹن کوئلے کے نئے ذخائر دریافت ہوئے جو 5 ارب بیرل تیل جس کی مالیت 450 ارب ڈالر ہے کے برابر ہے۔ جیالوجیکل سروے کے مطابق تھر میں کوئلے کے ذخائر 175 ارب ٹن ہیں جو سعودی عرب اور ایران کے تیل کے ذخائر کے برابر ہیں جس سے 300 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کوئلے کے ذخائر میں 20 ویں نمبر پر آتا ہے۔ دنیا میں کوئلے کے ذخائر اور اس کی پیداوار کے بعد اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ کون سے ممالک کوئلے سے کتنی بجلی پیدا کررہے ہیں ایک چھوٹا سا ملک قازقستان اپنی توانائی کا 85 فی صد، جنوبی افریقا 90فی صد، چین 90فی صد، انڈونیشیا 44 فی صد، بھارت 68فی صد۔ بدقسمتی سے پاکستان کا انرجی مکس نہایت مہنگا ہے جس کی وجہ سے ہماری بجلی کی پیداواری لاگت میں دوسرے ممالک کے مقابلے میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں کوئلے، نیوکلیئر، ہائیڈرو، شمسی، اور ہوا سے متبادل توانائی کے دیگر ذرائع سے سستی بجلی پیدا کرنا ہوگی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام کرے گا کون؟ جس ملک کے حاکم ہر چیز پر کمیشن طلب کریں جس ملک کے ادارے بغیر رشوت، بغیر کمیشن کے کام نہ کریں تو عوام کو ریلیف کس طرح سے ملے گا۔
ہمارے ملک کے نامور وکیل ضیا اعوان کی ایک سوشل میڈیا پر پوسٹ گزری کہ سب سے پہلے عدالتوں سے رشوت کو ختم کیا جائے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہی کرپشن ہے جس دن ہم نے کرپشن کی سزا موت سے مشروط کردی اس دن سے یہ ملک ترقی کی جانب چل پڑے گا۔ اگر ہمارے حکمرانوں کو عوام سے اور ملک سے واقعی محبت ہے تو پارلیمنٹ سے یہ بل پاس کروایا جائے۔ 74 برس سے بس ایک ہی تماشا چل رہا ہے قرضے لو، کھائو، یا معاف کرائو۔ آج پوری قوم کو حکمرانوں نے گروی رکھ دیا ہے۔ قرضے لیتے ہو تو قوم کو بتائو کے اتنا قرض لیا اور اتنا خرچ ہوا پھر اس کا باقاعدہ آڈٹ ہونا چاہیے وہ بھی کسی ایماندار غیر ملکی فرم سے۔ عمران خان صاحب یا ان کی حکومت نے عالمی اداروں سے اور مقامی طور پر قرضے تو اتنے لیے کہ 70 سالہ تاریخ میں کوئی حکومت اتنا قرضہ نہ لے سکی، اتنے قرضوں کے ثمرات نظر کیوں نہیں آتے، آخر ان قرضوں کی تفصیل کون بتائے گا۔ حکومت سے اُترتے ہی خان صاحب فام میں آگئے جلسے اور جلوس شروع کردیے جب آپ میاں نواز شریف سے شہباز شریف سے زرداری سے حساب مانگ سکتے ہیں تو پھر آپ کو بھی تو اپنے دور اقتدار حساب دینا چاہیے۔ آپ کے وزیر و مشیر کون سے پارسا تھے۔ آج پورا ملک سب مل کر کھا گئے اور پھر عوام کی عدالت میں آکر مظلوم بننے کی کوشش کرتے ہیں جہاں تک پاکستان کے قرضوں کا تعلق ہے تو یہ قرضے تو میاں صاحب، زرداری صاحب اور ان کے ہمنوا مل کر اُتار سکتے ہیں۔ سوئس بینک میں اتنا لوٹ کا مال موجود ہے کہ ملک کے سارے قرضے بھی اُترجائیں گے اور ہم دوسرے ممالک کو دل کھول کر بلاسود قرضہ دے سکیں گے کیوں کہ ہم مسلمان ہیں ہم پر سود حرام ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک تو چلتے ہی سود پر ہیں جو ہم نسل در نسل سے ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور نجانے کب تک ادا کرتے رہیں گے اور یہ قوم کو سوچنا ہے۔ آپ نے وہ نعرہ سنا تھا زرداری کا پاکستان کھپے اس کا مطلب بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ پاکستان کو مل کر کھانا ہے اور جب سے اب تک کھا ہی رہے ہیں پھر ایک نعرہ اور آیا قرض اُتارو ملک سنوارو یہ نعرہ میاں صاحب کا تھا مگر آج تک قوم کو اس کی تفصیلات کا علم نہیں۔ پھر نعرہ آیا نیا پاکستان کا، نیا پاکستان نہ بن سکا تو ریاست مدینہ کا نعرہ آیا مگر کوئی ایک کام بھی ریاست مدینہ کے ماڈل پر نہ کرسکے۔
میں حکمرانوں سے سوال کرتا ہوں پاکستان میں پٹرول 210 روپے اور افغانستان میں 88 روپے کا ہے، پاکستان میں ڈالر 205 اور افغانستان میں 95 روپے اور یاد رہے کہ افغانستان میں 40 سال جنگ ہوئی وجہ بس ایک ہے وہاں عیاشیوں کا نظام نہیں ہے اور وہاں کے حکمران کرپٹ نہیں ہیں ہمارے حکمرانوں نے تو نسلوں کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے میں آج بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں اپنی قوم سے جو میں ہمیشہ سے کہتا ہوں کہ ایک موقع جماعت اسلامی کو حکومت کرنے ضرور دو حقیقی ریاست مدینہ نظر نہ آئے تو میرا نام بدل دینا۔ میں یہ بات جانتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کو ایسا کرنے میں دشواری تو ضرور ہوگی مگر ایک مرتبہ ملک و قوم کے مفاد میں یہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ میں عمران خان کو یاد کرا دیتا ہوں کہ آپ نے صرف پونے چار سال میں 20 ہزار ارب کا قرضہ لیا مگر ایک کروڑ نوکریوں کا خواب، 50 لاکھ گھروں کا خواب پورا نہیں کرسکے۔ کیا آپ کے دور میں بے روزگاری نہیں بڑھی، کیا آپ کے دور میں مہنگائی نہیں تھی، عمران خان بے شمار صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر صلاحیت بصیرت کے بغیر بے کار ہے۔ آپ یوٹرن لینے کو رہنمائوں کی اعلیٰ صفت گردانتے ہیں۔ ابن آدم یہ کہتا ہے کہ اپنی بات پر ڈٹے رہنا لیڈر کی اصل پہچان ہے۔ چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں عوام اسی رہنما کو رہنما مانتے ہیں جو عوام سے مخلص ہو اور ان سے سچ بولے یہ نہ ہو کہ اب آپ کسی حلیے میں جذبات میں آکر یہ نہ کہہ دیں کہ ’’میں نے یہ کب کہا کہ امریکا نے میرے خلاف سازش کی، سازش تو 11 سیاسی و مذہبی جماعتوں نے مل کر اقتدار کی لالچ میں کی‘‘۔
مجھے وزیراعظم شہباز شریف کی تجویز پسند آئی کہ ملکی مسائل پر گرینڈ ڈائیلاگ ضروری ہے۔ گرینڈ ڈائیلاگ میں فوج و عدلیہ کو بھی بلائیں گے، مگر پی ٹی آئی نے اس تجویز کو مسترد کردیا۔ یہ خان صاحب کا غلط فیصلہ ہے اگر کوئی ایسا عمل جس سے ملک و قوم کو کوئی فائدہ ہو تو اس میں شامل ضرور ہونا چاہیے۔ خیر کون کیا کررہا ہے عوام دیکھ رہے ہیں، الیکشن میں وقت کم ہے یہ آنے والا وقت بتادے گا کہ اس ملک کی تقدیر کس کے ہاتھوں میں ہے۔
آخر میں ایک اہم موضوع پر بات کرکے اجازت چاہوں گا۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان اس وقت پانی کے بحران کا شکار ہے۔ 2025ء کے بعد یہ سنگین بحران کی صورت اختیار کرجائے گا اور اگر اس بارے میں موثر حکمت عملی نہ بنائی گئی تو 2040ء میں پاکستان میں پینے کا صاف پانی میسر نہ ہوگا اور یہ بات تو ہم بچپن سے سن رہے ہیں کہ آنے والے وقت میں جنگیں پانی کے حصول پر ہوں گی۔ لہٰذا پانی، بجلی، گیس، مہنگائی، بے روزگاری، غیر ملکی قرضوں سے نجات کو گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ بنایا جائے اور آنے والے بجٹ میں اشرافیہ پر بھاری ٹیکس لگایا جائے۔ امپورٹ پر پابندی لگائی جائے، کچھ ماہ کے لیے مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا جائے، ملک کے تجارتی خسارے میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ ہر سال 75 ارب ڈالر کی مصنوعات درآمد کی جاتی ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں برآمدات 30 بلین ڈالر ہیں یوں سالانہ 45 ارب ڈالر تجارتی خسارے کا سامنا ہے۔ لہٰذا اب سخت فیصلے کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اشرافیہ کی عیاشیوں کو ختم کیا جائے، سرکاری مراعات سرکاری افسران، وزرا، مشیروں، ایم این اے، ایم پی اے سے واپس لے لی جائے۔ 74 برس سے ملکی وسائل پر ان ہی لوگوں کا قبضہ ہے۔ خدا کا واسطہ اب غریبوں پر بوجھ نہ ڈالو ورنہ تم مرنے کے بعد اللہ کو کیا جواب دو گے۔ پاکستان ہے تو تم ہو ہم ہیں سب سے پہلے پاکستان کی سوچو۔