Pakistan
This article was added by the user . TheWorldNews is not responsible for the content of the platform.

توہین کریں گے! مودی کا عربوں سے اعلان ِ جنگ

میڈیا یہ خبر دے رہا ہے مودی نے توہین رسالت پر عربوں کے سخت رویہ کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ پہلے مرحلے پر مودی نے اپنے شہریوں سے کہا ہے کہ قطر ائر لائن کا بائیکاٹ کریں۔ یہ بھی خبر ہے بھارتی نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو جو ان دنوں قطر کے دورے پر ہیں قطری قیادت سے کہا اگر بھارتی مصنوعات کا بائیکاٹ اور وہاں سے بھارتی ورکرز کے خلاف کارروئی کی گئی تو بھارت بھی قطر میں ہونے والے فیفا فٹبال ورلڈ کپ رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ قطر بھارت کے نشانے پر اس لیے بھی ہے کہ اس نے بھارتی نائب صدر کے سامنے بھی سخت انداز سے توہین رسالت کی مذمت کی ہے۔ جس کے بعد مودی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگر بھارت کی مصنوعات کا عربوں نے بائیکاٹ کیا تو بھارت بھی عربوں سے تیل کی خریداری بند کر دے گا۔ بھارت اپنی ضرورت کا 40فی صد تیل عرب ممالک سے خریدتا ہے، روس سے تیل کی خریداری کے معاہدے کے بعد بھارت نے عربوں سے تیل کی خریداری کم کر دی ہے اور اب وہ عربوں کو دھمکی دے رہا ہے کہ توہین پر معافی کا مطالبہ ختم نہ کیا گیا وہ ازخود عربوں سے تیل کی خریداری بند کر دے گا۔ اس وقت عرب ممالک میں قانونی طور پر 96لاکھ اور غیرقانونی 10 سے 15لاکھ سلیپنگ بھارتی ورکرز کام کرتے ہیں جن میں 34لاکھ متحدہ عرب امارات، 25لاکھ سعودی عرب،10لاکھ کویت میں اور قطر میں 8لاکھ بھارتی کام کرتے ہیں اس طرح صرف چار عرب ملکوں میں 79لاکھ بھارتی ورکرز کام کر رہے ہیں لیکن سعودی مارکیٹوں میں بھارتی مصنوعات کی کھپت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
تین برسوں میں سعودی عرب کے لیے بھارتی برآمدی حجم 2 سے 6ارب ڈالرز تک پہنچ
چکا ہے اور سعودی عرب نے کشمیریوں پر ہونے والے مظالم پر مکمل خاموشی اختیار کی۔ چین، امریکا اور متحدہ عرب امارات کے بعد سعودی عرب ہندوستان کا چوتھا تجارتی شراکت دار ہے۔ فی الحال تجارتی تبادلے کا حجم تینتیس ارب اور ہندوستان کی سعودی عرب کو برآمدات چھے ارب ڈالر سے تجاوز کر رہی ہیں۔ دونوں ممالک میں تجارتی لین دین، درآمدات اور برآمدات گزشتہ تین سے چار سال میں مستقل مزاجی سے جاری ہیں۔ بھارت کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب ہندوستان کے لیے انتہائی قابل اعتبار شراکت دارہے۔ سعودی عرب بھارت کے 19 فی صد خام تیل کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ بھارت بہت سی غذائی اشیا کی فراہمی کے ذریعے فوڈ سیکورٹی کے معاملے میں سعودی عرب پر انحصار کرتا ہے۔ بھارت سعودی عرب کو چاول کی بڑی مقدار فراہم کرتا ہے۔
پورا بھارتی میڈیا ملعونہ کے خلاف بول رہا ہے اور اگر کسی بھارتی میڈیا نے ملعونہ کی حمایت بھی کی ہے اس میں بھی احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اس کے علاوہ پورا عرب میڈیا اور امریکی اور یورپی میڈیا بھی بھارتی ملعونہ کی اس حرکت کو ناپسندیدہ قرار دے رہا ہے لیکن کمال پاکستانی میڈیا دکھا رہا ہے جس نے اس پورے مسئلے پر بلا کی چپ سادھ لی ہے اور اپنے چینلوں پر بس اس بحث کو پروان چڑھانے میں مصروف ہے کہ ملک میں کب الیکشن ہوں گے اور نواز شریف و الطاف حسین کو لندن سے خطاب کی اجازت ملنی چاہیے کہ نہیں۔
بھارتی میڈیا میں القاعدہ سے منسوب جو تفصیلی بیان شائع ہوا ہے، اس میں لکھا گیا ہے، ’’چند روز قبل ہندوتوا کی تبلیغ کرنے والوں اور اس کے پرچم برداروں نے، جو اللہ کے دین اور اس کے شرعی نظام اور فلسفے کے مخالف ہیں، مخلوقات میں سے سب سے پاکیزہ شخصیت کی شان میں توہین کی، جن کی ہستی خدا کی ذات کے بعد سب سے زیادہ محترم ہے۔ ان کی پاکیزہ اہلیہ اور ام المومنین سیدہ عائشہ کی بھی ایک بھارتی ٹی وی چینل پر انتہائی برے انداز میں توہین کی گئی۔ اس وجہ سے پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں سے خون بہہ رہا ہے اور وہ جذبہ انتقام سے لبریز ہیں‘‘۔ القاعدہ نے اپنے خط میں مزید لکھا، ’’ہم دنیا کے ایسے ہر گستاخ خاص طور پر بھارت میں ہندوتوا کے دہشت گردوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ہمیں اپنے نبیؐ کی عزت کے لیے لڑنا ہے۔ ان واقعات پر کئی مسلم ممالک نے جب سخت احتجاج کیا اور اپنے ہاں بھارتی سفیروں کو بھی وضاحت کے لیے طلب کیا، تو بی جے پی نے دس روز گزر جانے کے بعد معلونہ نوپور شرما کی پارٹی رکنیت معطل کر دی جبکہ نوین جندل کو پارٹی سے نکال دیا گیا۔ کئی مسلم ممالک نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے بھارت سے اس پورے واقعے پر معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس دوران بھارت کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت بی جے پی نے ٹیلی وژن مباحثوں میں حصہ لینے والے اپنے نمائندوں کے لیے نئے رہنما اصول جاری کیے ہیں۔ اب صرف انہی ترجمانوں کو ایسے مباحث میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی، جنہیں پارٹی نے کلیئرنس دے رکھی ہو۔ ایسے ترجمانوں کو بحث کے دوران اپنی زبان پر بھی قابو رکھنا ہوگا تاکہ وہ مشتعل نہ ہوں اور کسی کے اُکسانے پر پارٹی کے نظریے اور اصولوں کی خلاف ورزی نہ کریں۔ لیکن اسی دوران بھارت مسلم ممالک پر بھی اپنا دباؤبڑھا رہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اگر بھارت کو توہین رسالت کرنے سے روکا گیا وہ عرب ممالک پر جنگ مسلط کر دے گا بھارت عالمی رائے کو اپنے حق میں کرنے کے لیے امریکا، یورپی ممالک اور اسرائیل سے بھی قریبی رابطے میں ہے۔
تحفظ ِ نبوت کے لیے جن عرب ممالک نے آواز بلند کی ہے ان میں وہ ممالک بھی شامل ہیں جن کی بھارت سے تجارتی تعلقات بہت تیزی سے بڑھ رہے اور بھارت کو ان سے تعلقات کی وجہ سے تجارت کے ساتھ ساتھ سیاسی حمایت بھی حاصل ہے اور یہ وہ ممالک ہیں جن کو کشمیر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے کوئی لینا دینا نہیں۔ پاکستان یہی کہتا رہا ہے کہ تنازعات پر سفارت کاری کے دروازے کھلے ہیں، تاہم بھارت کی جانب سے تعمیری بات چیت کے لیے ماحول کا فقدان ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک کے تعلقات اگست 2019 میں خراب ہوئے جب بھارت نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی نیم خودمختار آئینی حیثیت ختم کی جس کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ نہ صرف سفارتی تعلقات محدود کر دیے بلکہ باہمی تجارت بھی معطل کردی تھی۔ لیکن آج پاکستان کا کردار بھارت سے متعلق ایسا جیسے پاکستان کے تجارتی اور سیاسی مفادات بھارت سے نتھی ہیں۔ انہیں بنیادوں پر پاکستان بھارت سے تحفظ ِ ختم نبوت اہم مسئلے پر بھی محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہے؟